کیڑے مکوڑوں کی تیزی سے کم ہوتی آبادی ایک عالمی ماحولیاتی بحران کی نشاندہی کر رہی ہے جس پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں مختلف علاقوں میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد میں 75 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ صرف ایک حیاتیاتی حقیقت نہیں بلکہ زرعی پیداوار، غذائی چین، اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی ایک مہلک خطرہ ہے۔ خاص طور پر شہد کی مکھیاں، پروانے، گھن کے کیڑے، اور دیگر پولینیٹرز کی کمی، پودوں کی تولید اور خوراک کی فراہمی میں براہِ راست خلل ڈالتی ہے۔ حالیہ عالمی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، کیڑے مکوڑوں کی معدومیت کا موجودہ رجحان اگر برقرار رہا تو اگلی صدی میں ان میں سے آدھے سے زیادہ اقسام ناپید ہو سکتی ہیں۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات اور عالمی سطح پر اشتراک عمل کی اشد ضرورت ہے۔
قدرتی مساکن کی تباہی اور اس کے اثرات
کیڑوں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان کے قدرتی مساکن کی تباہی ہے۔ جنگلات کی کٹائی، شہروں کی بے ہنگم توسیع، اور زرعی زمین کی توسیع نے کیڑوں کی قدرتی پناہ گاہوں کو برباد کر دیا ہے۔ جب یہ مخلوق اپنی قدرتی جگہوں سے محروم ہوتی ہے تو ان کی بقا کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں، موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی کیڑوں کے رہائشی نظام کو بگاڑ دیا ہے۔ گرم ہوتی ہوئی زمین، بارش کے پیٹرن میں تبدیلی، اور دیگر موسمی عوامل نے کیڑوں کی تولید اور افزائش کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھنے والے کیڑے، جیسے کہ زمین کھودنے والے اور مٹی صاف کرنے والے کیڑوں کی معدومیت، ماحولیاتی نظام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
کیمیکل زراعت اور کیڑے مار ادویات
زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات کا وسیع استعمال کیڑوں کی آبادی کو متاثر کرنے والی دوسری بڑی وجہ ہے۔ خاص طور پر نیکوٹینوئڈز (neonicotinoids) جیسی کیمیکل ادویات نے شہد کی مکھیوں اور دوسرے اہم پولینیٹرز کی نسلوں کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
یہ ادویات نہ صرف کیڑوں کو براہ راست مارتی ہیں بلکہ ان کے مدافعتی نظام کو بھی کمزور کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ ادویات مٹی، پانی، اور ہوا میں دیرپا اثرات چھوڑتی ہیں، جو باقی ماحولیاتی نظام کے لیے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔
یورپی یونین کی پابندیوں کی تفصیل
ماحولیاتی آلودگی اور روشنی کی زیادتی
ماحولیاتی آلودگی بھی کیڑوں کی نسل کشی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، اور خاص طور پر نائٹروجن آلودگی کیڑوں کی زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ مزید برآں، شہری علاقوں میں روشنی کی زیادتی (light pollution) نے پروانوں، جگنوؤں، اور دیگر رات کو فعال رہنے والے کیڑوں کی فطری حرکات کو شدید متاثر کیا ہے۔
جب کیڑے قدرتی دن رات کے چکر سے ہٹ جاتے ہیں، تو ان کی افزائش، تلاش خوراک، اور شکار سے بچاؤ کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ اس کا براہِ راست اثر ان کی بقاء پر پڑتا ہے، جو بالآخر ان کے مکمل غائب ہونے کا سبب بنتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے کیڑوں کے قدرتی ماحول اور ان کے رہن سہن کے نظام میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ، بارش کی کمی یا زیادتی، اور طویل خشک سالی جیسے عوامل نے کیڑوں کی زندگی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
خاص طور پر شہد کی مکھیاں اور تتلیاں ان تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔ جب پھول موسم کے خلاف وقت پر کھلتے ہیں یا ان کی دستیابی کم ہو جاتی ہے، تو یہ پولینیٹرز خوراک نہ ملنے سے مرنے لگتے ہیں۔
بائیو ڈائیورسٹی کی کمی اور خوراک کی قلت
حیاتیاتی تنوع کی کمی کیڑوں کی بقاء میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ جب مختلف پودوں کی اقسام کم ہو جاتی ہیں تو کیڑے جو ان پر انحصار کرتے ہیں، خوراک اور پناہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ زراعت میں صرف چند اقسام کے فصلوں پر انحصار، مونوکلچر سسٹم، کیڑوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔
ایسے ماحول میں جہاں خوراک کی اقسام محدود ہوں، وہاں کیڑے اپنے انفرادی غذائی ذرائع سے محروم ہو جاتے ہیں اور بالآخر ان کی نسل ختم ہو جاتی ہے۔
حل اور مستقبل کے لیے تجاویز
کیڑوں کو بچانے کے لیے ہمیں مشترکہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے، قدرتی مساکن کی بحالی پر توجہ دینا ہو گی۔ شہری علاقوں میں بھی پودے لگانا، شہد کی مکھیوں کے لیے دوستانہ باغات بنانا، اور غیر ضروری روشنی کم کرنا بنیادی اقدامات ہو سکتے ہیں۔
دوسرا، کیمیکل کے بجائے نامیاتی زراعت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ زرعی پالیسیوں میں تبدیلیکیڑوں کے معدوم ہونے کی وجوہات اور ان کا حل، پائیدار زراعت کی حمایت، اور پولینیٹرز کے تحفظ کے لیے قوانین کو مضبوط کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تعلیم اور آگاہی کی مہمات کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرنا بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
*Capturing unauthorized images is prohibited*